EN हिंदी
خس و خاشاک بدن شام قضا سے روشن | شیح شیری
KHas-o-KHashak-e-badan sham-e-qaza se raushan

غزل

خس و خاشاک بدن شام قضا سے روشن

شفق سوپوری

;

خس و خاشاک بدن شام قضا سے روشن
شمع انفاس ہو کیوں موج ہوا سے روشن

دشت میں دور کہیں دور سیہ ٹیلوں پر
ہیں مرے خواب کسی کے کف پا سے روشن

ورنہ کس طرح مری راکھ منور ہوتی
کوئی چنگاری تو ہے اس میں ہوا سے روشن

کس طرح خود سے جل اٹھے ہیں یہ لفظوں کے چراغ
صفحۂ نطق ہوا کس کی نوا سے روشن

جان اس کو بھی غنیمت کہ بزرگوں کے طفیل
راستے شہر کے ہیں اب بھی ذرا سے روشن

میری راتوں میں جلا شمع مناجاتوں کی
میری صبحوں کو بنا حرف دعا سے روشن