خرابے میں بوچھار ہو کر رہے گی
گلی دل کی گلزار ہو کر رہے گی
حکومت غموں کی نہیں چلنے والی
مسرت کی یلغار ہو کر رہے گی
کہ شاخوں پہ پھولوں کے گچھے تو دیکھو
یہ بغیا ثمر دار ہو کر رہے گی
بھرے جائیں گے غار پربت گرا کر
یہ دھرتی تو ہموار ہو کر رہے گی
لکیریں فقط کھینچتا جا ورق پر
کوئی شکل تیار ہو کر رہے گی
میں ایسا فسانہ سنانے کو ہوں اب
کہ شب بھر تو بیدار ہو کر رہے گی
یہ پاگل ہوا اور سفر بے کراں یہ
جدا سر سے دستار ہو کر رہے گی
چلاؤں گا تیشہ میں اب عاجزی کا
انا اس کی مسمار ہو کر رہے گی
غزل
خرابے میں بوچھار ہو کر رہے گی
سوربھ شیکھر