خراب ہو گیا جب میرے جسم کا کاغذ
تو میری روح نے پہنا ہے دوسرا کاغذ
گزار دی ہے یوں ہی جوڑتے گھٹاتے ہوئے
سوال حل نہ ہوئے اور بھر گیا کاغذ
غریب شہر ہوں گھر ہے نہ کاروبار کوئی
کبھی بچھاتا کبھی اوڑھتا رہا کاغذ
حروف رقص کناں ہو گئے اچانک ہی
لبوں سے اپنے جو اس نے کبھی چھوا کاغذ
وہ دن بھی یاد ہیں ہم کو تمہارے ہجراں میں
ہمارے بیچ میں جب رابطہ بنا کاغذ
اسے جو ناؤ بنایا تو غرق آب ہوا
کچھ اور دیر تو لہروں سے کھیلتا کاغذ
عدالتوں میں بھی جھوٹی گواہیوں کے لئے
تمام عمر زباں کھولتا رہا کاغذ
فتور ذہن میں بھر کر ہوس کے نیزوں پر
اچھالتا رہا ہم کو حرام کا کاغذ
غزل
خراب ہو گیا جب میرے جسم کا کاغذ
سنجے مصرا شوق