خراب حال ہوں ہر حال میں خراب رہا
خوشی میں بھی غم دل کا سا اضطراب رہا
نظارۂ رخ زیبا کی یاں کسے فرصت
نقاب رخ پہ رہی یا وہ بے نقاب رہا
طرب کی بزم میں جا کر کرے گا کیا کوئی
نہ وہ پیالہ نہ وہ مے نہ وہ شباب رہا
نوائے شوق نکلتی ہے اب بھی دل سے مگر
نہ وہ اپج نہ وہ محفل نہ وہ رباب رہا
ہر ایک چیز کی دنیا میں حد مقرر ہے
مگر یہ رنج زمانہ کا بے حساب رہا
خیال و خواب مسرت کی اک توقع پر
تمام عمر مجھے انتظار خواب رہا

غزل
خراب حال ہوں ہر حال میں خراب رہا
فضل الرحمٰن