EN हिंदी
خراب حال ہوں ہر حال میں خراب رہا | شیح شیری
KHarab-haal hun har haal mein KHarab raha

غزل

خراب حال ہوں ہر حال میں خراب رہا

فضل الرحمٰن

;

خراب حال ہوں ہر حال میں خراب رہا
خوشی میں بھی غم دل کا سا اضطراب رہا

نظارۂ رخ زیبا کی یاں کسے فرصت
نقاب رخ پہ رہی یا وہ بے نقاب رہا

طرب کی بزم میں جا کر کرے گا کیا کوئی
نہ وہ پیالہ نہ وہ مے نہ وہ شباب رہا

نوائے شوق نکلتی ہے اب بھی دل سے مگر
نہ وہ اپج نہ وہ محفل نہ وہ رباب رہا

ہر ایک چیز کی دنیا میں حد مقرر ہے
مگر یہ رنج زمانہ کا بے حساب رہا

خیال و خواب مسرت کی اک توقع پر
تمام عمر مجھے انتظار خواب رہا