EN हिंदी
خنجر کی طرح اترے ہے جو بات کرو ہو | شیح شیری
KHanjar ki tarah utre hai jo baat karo ho

غزل

خنجر کی طرح اترے ہے جو بات کرو ہو

اقبال حیدری

;

خنجر کی طرح اترے ہے جو بات کرو ہو
اپنوں پہ یہ تم کیسی عنایات کرو ہو

جب برملا کہنے کی یہاں رسم نہیں ہے
پھر کس لیے تم پرشش حالات کرو ہو

یا کہتے تھے تم کھل کے کہو جو بھی ہے دل میں
یا کہتے ہو تم ہم سے شکایات کرو ہو

یا ہم سے گھڑی بھر کی جدائی تھی قیامت
یا ہم سے گھڑی بھر بھی نہ اب بات کرو ہو

دیکھو کبھی اس کو بھی جو ہے چہروں کے پیچھے
کہنے کو تو تم سب سے ملاقات کرو ہو

ہم دل زدگاں کو بھی تو آ کر کبھی پوچھو
تم سب پہ کرم سب پہ عنایات کرو ہو

اس کوچہ سے گزرو ہو نہ تم اس سے ملو ہو
اس شہر میں کیسے گزر اوقات کرو ہو

تسبیح تھی اس نام کی ہر وقت یا اب تم
اللہ کی دن رات مناجات کرو ہو

ہے ترک تعلق بھی تو یک گونہ تعلق
کیوں اس کی زمانہ سے شکایات کرو ہو

وہ تم سے خفا ہے تو اسے جا کے منا لو
کیوں اور خراب اپنے یہ حالات کرو ہو

اقبالؔ اٹھو کام میں اب جی کو لگاؤ
کس دھیان میں برباد یہ دن رات کرو ہو