خندگی خوش لب تبسم مثل ارماں ہو گئے
عہد بے غم جوں ہی آیا ہم پریشاں ہو گئے
آگے تھی ہم کو قرابت شب سے شب کو ہم سے تھی
ان کو تھی خلوت سے رغبت ہم شبستاں ہو گئے
ہائے یہ عجز و نیاز مے کشاں بھی کم نہیں
آہ کیا بھر لی کہ ہم خاک گلستاں ہو گئے
کیا تری محفل کی ہے یہ ارتجالی اے خدا
سانس کی فرصت نہ دی اور عہد و پیماں ہو گئے
کیا کریں شکوہ تری بے اعتدالی سے رقیب
وہ بلائے بھی نہ آئے آپ مہمان ہو گئے
یاد ہے ہم کو جنون لا فنا کی لغزشیں
ہم میں تھی موجیں کبھی اب دشت ویراں ہو گئے
رکھ لیا ساقی نے میری خستگی کا یہ بھرم
شیخ کی مجلس میں ہم پستی کا ساماں ہو گئے
تیرے کاکل کی درازی ہو کہ زلفوں کا ستم
ہم نے آنکھیں ان سے موندیں بھی تو زنداں ہو گئے
تیری قامت پر فدا ہو کیا کہ لب پر افتخار
تیری انگشت حنائی پر ہی قرباں ہو گئے
آہ وہ بالغ ترا مشہور فہوائے کلام
بلبلوں نے ہم کو دیکھا کل تو حیراں ہو گئے

غزل
خندگی خوش لب تبسم مثل ارماں ہو گئے
عرفان احمد میر