خموشیوں میں سدا سے لکھا ہوا اک نام
سنو ہے دست دعا سے لکھا ہوا اک نام
ہر اک کی اپنی زباں ہے نہ پڑھ سکے گا بشر
زمیں پہ آب و ہوا سے لکھا ہوا اک نام
جو سن سکو تو سنو خوشبوؤں کے لب پر ہے
گلوں پہ باد صبا سے لکھا ہوا اک نام
چمکتا رہتا ہے جب تک کریدی جائے نہ راکھ
چتا پہ دست فنا سے لکھا ہوا اک نام
عجیب بات ہے پڑھیے تو حرف اڑنے لگیں
بدن بدن پہ قبا سے لکھا ہوا اک نام
کبھی کبھی تو برستے ہوئے بھی دیکھا ہے
فلک پہ کالی گھٹا سے لکھا ہوا اک نام
مگر یہ قوت بینائی کس طرح آئی
ہوا میں دیکھا ہوا سے لکھا ہوا اک نام
کبھی کھلیں گی اگر مٹھیاں تو دیکھیں گے
ہتھیلیوں پہ حنا سے لکھا ہوا اک نام
یہ کائنات تو لگتا ہے نورؔ جیسے ہو
کسی کی خاص ادا سے لکھا ہوا اک نام
غزل
خموشیوں میں سدا سے لکھا ہوا اک نام
کرشن بہاری نور

