خموشی میری لے میں گنگانا چاہتی ہے
کسی سے بات کرنے کا بہانا چاہتی ہے
نفس کے لوچ کو خنجر بنانا چاہتی ہے
محبت اپنی تیزی آزمانا چاہتی ہے
مبادا شہر کا رستہ کوئی رہ رہ نہ پا لے
ہوا قبروں کی شمعیں بھی بجھانا چاہتی ہے
گلابوں سے لہو رستا ہے میری انگلیوں کا
فضا کیسی چمن بندی سکھانا چاہتی ہے
میں اب کے اس کی بنیادوں میں لاشیں چن رہا ہوں
امارت کوئی قصر دلبرانہ چاہتی ہے
جہاں پتھر سہی لیکن جنوں کی خود نمائی
فریب جلوۂ آئینہ خانہ چاہتی ہے
غزل
خموشی میری لے میں گنگانا چاہتی ہے
عبد الرؤف عروج