خموش رہ کر پکارتی ہے
وہ آنکھ کتنی شرارتی ہے
ہے چاندنی سا مزاج اس کا
سمندروں کو ابھارتی ہے
میں بادلوں میں گھرا جزیرہ
وہ مجھ میں ساون گزارتی ہے
کہ جیسے میں اس کو چاہتا ہوں
کچھ ایسے خود کو سنوارتی ہے
خفا ہو مجھ سے تو اپنے اندر
وہ بارشوں کو اتارتی ہے
غزل
خموش رہ کر پکارتی ہے
حسن عباسی