EN हिंदी
خموش رہ کر پکارتی ہے | شیح شیری
KHamosh rah kar pukarti hai

غزل

خموش رہ کر پکارتی ہے

حسن عباسی

;

خموش رہ کر پکارتی ہے
وہ آنکھ کتنی شرارتی ہے

ہے چاندنی سا مزاج اس کا
سمندروں کو ابھارتی ہے

میں بادلوں میں گھرا جزیرہ
وہ مجھ میں ساون گزارتی ہے

کہ جیسے میں اس کو چاہتا ہوں
کچھ ایسے خود کو سنوارتی ہے

خفا ہو مجھ سے تو اپنے اندر
وہ بارشوں کو اتارتی ہے