خموش کس لیے بیٹھے ہو چشم تر کیوں ہو
کوئی خفا ہو کسی سے تو اس قدر کیوں ہو
نظر کی پیاس بجھا دو جو اک نگاہ سے تم
تو ہر نظارے سے رسوا مری نظر کیوں ہو
جنوں کی جادہ تراشی ہے بانکپن میرا
یہ رہ گزار جہاں اپنی رہ گزر کیوں ہو
گرا تھا جام نہ ٹوٹا تھا کوئی آئینہ
شکست دل کی بھلا آپ کو خبر کیوں ہو
رفیق تا بہ سحر ہے ستارۂ شب غم
یہ بے وفا سا اجالا بھی ہم سفر کیوں ہو
کبھی نہ روٹھنے والے بھی روٹھ جاتے ہیں
یہ بات پیار میں ہوتی تو ہے مگر کیوں ہو
غم زمیں سے یہاں فرصت نظارہ کسے
گلی میں تم بھی چلے آؤ بام پر کیوں ہو
شب فراق ہی اچھی کوئی امید تو ہے
بغیر ان کے سحر ہو تو پھر سحر کیوں ہو
وہ شعر سادہ سہی سن کے دل بھر آئے شمیمؔ
جو پرخلوص ہو لہجہ تو بے اثر کیوں ہو
غزل
خموش کس لیے بیٹھے ہو چشم تر کیوں ہو
شمیم کرہانی