EN हिंदी
خمیر میرا اٹھا وفا سے | شیح شیری
KHamir mera uTha wafa se

غزل

خمیر میرا اٹھا وفا سے

بانو بی

;

خمیر میرا اٹھا وفا سے
وجود میرا فقط حیا سے

کچھ اور بوجھل ہوا مرا دل
گھٹی ہوئی درد کی فضا سے

برس پڑے حسرتوں کے بادل
نظر پہ چھائی ہوئی گھٹا سے

ہے وحشتوں کا سفر مسلسل
بڑھا جنوں ہجر کی سزا سے

ہتھیلیوں پر نہ رچ سکی وہ
جو نام لکھا ترا حنا سے

بنا گئی تم کو اور چنچل
جھکی جو میری نظر حیا سے

گلوں پہ اک بے خودی سی چھائی
چمن میں بہکی ہوئی صبا سے

ہے وجد کیوں شاخ گل پہ طاری
لپٹ کے جھومی وہ کیوں ہوا سے

مہک کی کرنیں چمن میں رقصاں
گلاب کی ریشمی قبا سے

کلی کو چوما گلوں کو نوچا
کسی نے سیماب سی ادا سے

ہے تو مسیحا تو کر مداوا
ہے سوچ زخمی تری جفا سے

وہی ادا بے نیازیوں کی
تو کام کب تک نہ لوں انا سے

یقین کیسے کروں میں بانوؔ
سکون کیا دے سکیں دلاسے