خلوتئ خیال کو ہوش میں کوئی لائے کیوں
شعلۂ طور ہی سہی ہم سے نظر ملائے کیوں
ہم سے کچھ اور ہی کہا ان سے کچھ اور کہہ دیا
باد صبا یہ کیا کیا تو نے یہ گل کھلائے کیوں
قیس کا حاصل جنوں ناقہ و محمل و حجاب
لیلئ نجد آشنا خلوت دل میں آئے کیوں
عقل حریص خار و خس صورت شعلۂ ہوس
دولت سوز جاوداں عقل کے ہاتھ آئے کیوں
گردش مہر و ماہ بھی گردش جام بن گئی
صبح نہ لڑکھڑائے کیوں شام نہ جھوم جائے کیوں
طالب حجلۂ بہار دشت طلب ہے خارزار
وقت کسی کی راہ میں مسند گل بچھائے کیوں
حشر میں حسن سے روشؔ شکوۂ روبرو غلط
روز ازل کی بات ہے آج ہی یاد آئے کیوں
غزل
خلوتئ خیال کو ہوش میں کوئی لائے کیوں
روش صدیقی