خلوت ذات ہے اور انجمن آرائی ہے
بزم سی بزم ہے تنہائی سی تنہائی ہے
وہ ہے خاموش مگر اس کے سکوت لب پر
رقص کرتا ہوا اک عالم گویائی ہے
جب اندھیرے مری آنکھوں کا لہو چاٹ چکے
تب ان آنکھوں میں رفاقت کی چمک آئی ہے
اب خدا اس کو بنایا ہے تو یاد آتا ہے
جیسے اس بت سے تو برسوں کی شناسائی ہے
نیند ٹوٹی ہے تو احساس زیاں بھی جاگا
دھوپ دیوار سے آنگن میں اتر آئی ہے
پس دیوار ابد دیکھ رہا ہوں اے دوست
میری آنکھوں میں مرے عہد کی بینائی ہے
میرے چہرے پہ ہے وہ عکس کہ آئینۂ ذات
کبھی میرا کبھی خود اپنا تماشائی ہے
میرے سچ میں تو کوئی کھوٹ نہیں تھا سرشارؔ
پھر یہ کیوں زہر سے تریاک کی بو آئی ہے
غزل
خلوت ذات ہے اور انجمن آرائی ہے
سرشار صدیقی