EN हिंदी
خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے | شیح شیری
KHalq ne ek manzar nahin dekha bahut dinon se

غزل

خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے

افتخار عارف

;

خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
نوک سناں پہ سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے

پتھر پہ سر رکھ کر سونے والے دیکھے
ہاتھوں میں پتھر نہیں دیکھا بہت دنوں سے

قاتل جس کی زد سے خود محفوظ رہ سکے
ایسا کوئی خنجر نہیں دیکھا بہت دنوں سے

اپنے ہی خیموں پر جو شب خون نہ مارے
ایسا کوئی لشکر نہیں دیکھا بہت دنوں سے

شاخ بریدہ کھلی فضا سے پوچھ رہی ہے
کوئی شکستہ پر نہیں دیکھا بہت دنوں سے

زنداں اہل جنوں کو شاید راس آ گیا
دیواروں میں در نہیں دیکھا بہت دنوں سے

خاک اڑانے والے لوگوں کی بستی میں
کوئی صورت گر نہیں دیکھا بہت دنوں سے

سچے سائیں ہمارے حضرت مہرؔ علی شاہ
بابا ہم نے گھر نہیں دیکھا بہت دنوں سے