خلش و سوز دل فگار ہی دی
دل میں شمشیر آب دار ہی دی
بے وفا سے معاملے کے لیے
اک طبیعت وفا شعار ہی دی
کیفیت دل کی بیان کرنے کو
ایک آواز دل فگار ہی دی
خار کو تو زبان گل بخشی
گل کو لیکن زبان خار ہی دی
دل شب زندہ دار ہم کو دیا
حسن کو چشم پر خمار ہی دی
خود رقیبوں کے واسطے میں نے
زلف معشوق کی سنوار ہی دی
کیا نشیب و فراز تھی تنویرؔ
زندگی آپ نے گزار ہی دی
غزل
خلش و سوز دل فگار ہی دی
حبیب تنویر