خلش خار ہو وحشت میں کہ غم ٹوٹ پڑے
پر پھپھولوں میں الٰہی نہ مرے پھوٹ پڑے
دن دو پہرے ہی شفق شام جہاں میں پھولے
آسماں پر لب لعلیں کے اگر چھوٹ پڑے
دم نکل جائے خفا ہو کے غم کاکل میں
جو پڑے حلق میں پھندا وہ گلا گھوٹ پڑے
ہجر ساقی میں دہن سے مرے اچھو ہو کر
جو پیوں آب بقا بھی وہ نکل گھوٹ پڑے
حرمت بنت عنب میں نہیں کچھ شک اے شادؔ
واعظیں بیہدا بکتے ہیں بکیں چھوٹ پڑے
غزل
خلش خار ہو وحشت میں کہ غم ٹوٹ پڑے
شاد لکھنوی