خلا میں ہو ارتعاش جیسے کچھ ایسا منظر ہے اور میں ہوں
یہ کرب تخلیق کا دھواں ہے جو میرے اندر ہے اور میں ہوں
ہزار رنگوں میں اپنی لہروں پہ شام ابھرتی ہے ڈوبتی ہے
چہار اطراف آئینہ ہیں وہ زلف ابتر ہے اور میں ہوں
مرے سوا کچھ نہیں کہیں بھی ازل ابد ایک خواب مستی
زمیں قدم بھر ہے میرے نیچے فلک نگہ بھر ہے اور میں ہوں
سیاہ گرداب سی خلا میں کسی کو تو ڈوبنا ہے آخر
سفر کا ساتھی بس اک ستارہ مرے برابر ہے اور میں ہوں
مجھے خبر ہے کہ رمزؔ کتنی سماعتیں زخم زخم ہوں گی
لہو کی ہیں کچھ حکایتیں اور زبان خنجر ہے اور میں ہوں
غزل
خلا میں ہو ارتعاش جیسے کچھ ایسا منظر ہے اور میں ہوں
محمد احمد رمز