خلا میں گھور رہا ہے عجیب آدمی ہے
عجب طلب میں پڑا ہے عجیب آدمی ہے
یہاں تو بولے بنا بات ہی نہیں بنتی
سکوت بیچ رہا ہے عجیب آدمی ہے
میں اس کو چھوڑ رہا ہوں عجیب آدمی ہوں
وہ میرا سایہ بنا ہے عجیب آدمی ہے
ابھی یہیں تھا ابھی دیکھ تو کہیں بھی نہیں
یہ آدمی کہ ہوا ہے عجیب آدمی ہے
میں جس کا دھیان بٹاتا رہا ہوں مشکل میں
مجھے وہ بھول رہا ہے عجیب آدمی ہے
غزل
خلا میں گھور رہا ہے عجیب آدمی ہے
سجاد بلوچ