EN हिंदी
خلا میں گھور رہا ہے عجیب آدمی ہے | شیح شیری
KHala mein ghur raha hai ajib aadmi hai

غزل

خلا میں گھور رہا ہے عجیب آدمی ہے

سجاد بلوچ

;

خلا میں گھور رہا ہے عجیب آدمی ہے
عجب طلب میں پڑا ہے عجیب آدمی ہے

یہاں تو بولے بنا بات ہی نہیں بنتی
سکوت بیچ رہا ہے عجیب آدمی ہے

میں اس کو چھوڑ رہا ہوں عجیب آدمی ہوں
وہ میرا سایہ بنا ہے عجیب آدمی ہے

ابھی یہیں تھا ابھی دیکھ تو کہیں بھی نہیں
یہ آدمی کہ ہوا ہے عجیب آدمی ہے

میں جس کا دھیان بٹاتا رہا ہوں مشکل میں
مجھے وہ بھول رہا ہے عجیب آدمی ہے