خلا کے دشت سے اب رشتہ اپنا قطع کروں
سفر طویل ہے بہتر ہے گھر کو لوٹ چلوں
بلند ہوتا ہے جب جب بھی شور نالوں کا
خیال آتا ہے دل میں کہ میں بھی چیخ پڑوں
تمہارے ہوتے ہوئے لوگ کیوں بھٹکتے ہیں
کہیں پہ خضر نظر آئے تو سوال کروں
مآل جو بھی ہو جس طرح بھی کٹے یہ عمر
تمہارے ناز اٹھاؤں تمہارے رنج سہوں
ادھوری ان کہی بے ربط داستان حیات
لہو سے لکھ نہیں سکتا تو آنسوؤں سے لکھوں
غزل
خلا کے دشت سے اب رشتہ اپنا قطع کروں
غضنفر