EN हिंदी
خیر اس سے نہ سہی خود سے وفا کر ڈالو | شیح شیری
KHair us se na sahi KHud se wafa kar Dalo

غزل

خیر اس سے نہ سہی خود سے وفا کر ڈالو

سہیل احمد زیدی

;

خیر اس سے نہ سہی خود سے وفا کر ڈالو
وقت اب کم ہے بہت یاد خدا کر ڈالو

ایک صورت ہے یہی پاؤں جمے رہنے کی
ہاتھ اٹھاؤ دل ثابت کی دعا کر ڈالو

حرف انکار بھی اس در سے بڑی نعمت ہے
یہ فقیروں کے ہیں اسرار صدا کر ڈالو

اور دنیا میں بہت کچھ ہے گلستاں کی طرح
سیر تم بھی کبھی ہمراہ صبا کر ڈالو

حبس ہوتا ہے عجب دل میں ترے غم کے بغیر
جی الجھتا ہے کچھ اس طرح کہ کیا کر ڈالو

عمر بھر آئے گی ہاتھوں سے گلابوں کی مہک
خار زاروں کا سفر برہنہ پا کر ڈالو

یہ ملامت نہ سنو دل کی شب و روز سہیلؔ
جان ہی کا تو زیاں ہوگا وفا کر ڈالو