خیر اس سے نہ سہی خود سے وفا کر ڈالو
وقت اب کم ہے بہت یاد خدا کر ڈالو
ایک صورت ہے یہی پاؤں جمے رہنے کی
ہاتھ اٹھاؤ دل ثابت کی دعا کر ڈالو
حرف انکار بھی اس در سے بڑی نعمت ہے
یہ فقیروں کے ہیں اسرار صدا کر ڈالو
اور دنیا میں بہت کچھ ہے گلستاں کی طرح
سیر تم بھی کبھی ہمراہ صبا کر ڈالو
حبس ہوتا ہے عجب دل میں ترے غم کے بغیر
جی الجھتا ہے کچھ اس طرح کہ کیا کر ڈالو
عمر بھر آئے گی ہاتھوں سے گلابوں کی مہک
خار زاروں کا سفر برہنہ پا کر ڈالو
یہ ملامت نہ سنو دل کی شب و روز سہیلؔ
جان ہی کا تو زیاں ہوگا وفا کر ڈالو
غزل
خیر اس سے نہ سہی خود سے وفا کر ڈالو
سہیل احمد زیدی