EN हिंदी
خیر سے زیست کا اے کاش ہو انجام ابھی | شیح شیری
KHair se zist ka ai kash ho anjam abhi

غزل

خیر سے زیست کا اے کاش ہو انجام ابھی

مانی جائسی

;

خیر سے زیست کا اے کاش ہو انجام ابھی
وقت اچھا ہے زباں پر ہے ترا نام ابھی

ہاں لبالب تو ہے لبریز نہیں جام ابھی
ضبط میں ہے اثر گردش ایام ابھی

وہ نہیں ہیں تو نگاہوں میں ہے دنیا اندھیر
کیسے روشن تھے منور تھے در و بام ابھی

یہی سمجھیں گے محبت کو حیات جاوید
جو سمجھتے ہیں اسے موت کا پیغام ابھی

بے نیازیٔ تمنا کہ ہے اک جنت عشق
دل نے پایا نہیں فطرت سے یہ انعام ابھی

تا بہ معراج یقیں دیکھیے کب تک پہنچوں
دل کی گہرائیوں میں ہیں بہت اوہام ابھی

عازم بارگہہ دوست تھا مانیؔ لیکن
کیا پہنچتا کہ ہے سر بر در‌ اصنام ابھی