EN हिंदी
خیر مانگی جو آشیانے کی | شیح شیری
KHair mangi jo aashiyane ki

غزل

خیر مانگی جو آشیانے کی

نوشاد علی

;

خیر مانگی جو آشیانے کی
آندھیاں ہنس پڑیں زمانے کی

میرے غم کو سمجھ سکا نہ کوئی
مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی

دل سا گھر ڈھا دیا تو کس منہ سے
بات کرتے ہو گھر بسانے کی

حسن کی بات عشق کے قصے
بات کرتے ہو کس زمانے کی

دل ہی قابو میں اب نہیں میرا
یہ قیامت تری ادا نے کی

کچھ تو طوفاں کی زد میں ہم آئے
کچھ نوازش بھی نا خدا نے کی

مجھ کو تم یاد اور بھی آئے
کوششیں جتنی کی بھلانے کی

وہ ہی نوشادؔ فن کا شیدائی
بات کرتے ہو کس دوانے کی