خیر کی نذر کی ہے یا شر کی
اک یہ پونجی تھی زندگی بھر کی
سارے رستے بجھا دئے میں نے
اک گلی خواب کی منور کی
تجھ کو اتنے تو بل میں دے لیتا
جتنی شکنیں ہیں میرے بستر کی
یہ مرا دل یہ ریگ زار فراق
دیکھ لے آب اس سمندر کی
پیٹھ موڑے ہوئے ہر اک دیوار
بھاگنا چاہتی ہے اس گھر کی

غزل
خیر کی نذر کی ہے یا شر کی
سید کاشف رضا