EN हिंदी
خیر کی نذر کی ہے یا شر کی | شیح شیری
KHair ki nazr ki hai ya shar ki

غزل

خیر کی نذر کی ہے یا شر کی

سید کاشف رضا

;

خیر کی نذر کی ہے یا شر کی
اک یہ پونجی تھی زندگی بھر کی

سارے رستے بجھا دئے میں نے
اک گلی خواب کی منور کی

تجھ کو اتنے تو بل میں دے لیتا
جتنی شکنیں ہیں میرے بستر کی

یہ مرا دل یہ ریگ زار فراق
دیکھ لے آب اس سمندر کی

پیٹھ موڑے ہوئے ہر اک دیوار
بھاگنا چاہتی ہے اس گھر کی