خفا ہونا ذرا سی بات پر تلوار ہو جانا
مگر پھر خود بہ خود وہ آپ کا گلنار ہو جانا
کسی دن میری رسوائی کا یہ کارن نہ بن جائے
تمہارا شہر سے جانا مرا بیمار ہو جانا
وہ اپنا جسم سارا سونپ دینا میری آنکھوں کو
مری پڑھنے کی کوشش آپ کا اخبار ہو جانا
کبھی جب آندھیاں چلتی ہیں ہم کو یاد آتا ہے
ہوا کا تیز چلنا آپ کا دیوار ہو جانا
بہت دشوار ہے میرے لیے اس کا تصور بھی
بہت آسان ہے اس کے لیے دشوار ہو جانا
کسی کی یاد آتی ہے تو یہ بھی یاد آتا ہے
کہیں چلنے کی ضد کرنا مرا تیار ہو جانا
کہانی کا یہ حصہ اب بھی کوئی خواب لگتا ہے
ترا سر پر بٹھا لینا مرا دستار ہو جانا
محبت اک نہ اک دن یہ ہنر تم کو سکھا دے گی
بغاوت پر اترنا اور خود مختار ہو جانا
نظر نیچی کیے اس کا گزرنا پاس سے میرے
ذرا سی دیر رکنا پھر صبا رفتار ہو جانا
غزل
خفا ہونا ذرا سی بات پر تلوار ہو جانا
منور رانا