کھڑا جوڑا گندھی بالوں کی چوٹی
دوپٹا زعفرانی زرد کوٹی
شکستہ دل کے اندر تیاگ کی دھن
پھٹی پتلون کے نیچے لنگوٹی
رسیلے لب وہی بنسی کے اوپر
سجیلی چھب وہی کالی کلوٹی
بچھڑ مت یوں کہ دل تجھ کو بھلا دے
کسک رہنے دے کچھ تو چھوٹی موٹی
نہیں ایسے نہیں ہٹ چھوڑ مجھ کو
تری نیت طبیعت سے بھی کھوٹی
میرے اجداد بھی حملوں میں یکتا
مرا بچہ بھی کھیلے لے کے سوٹی
رتیں لوٹیں نہ وہ لوٹا نگر میں
چرانے شہد مکھن ساگ روٹی
نصیب اس کے گگن سے بھی کشادہ
لکیریں ہاتھ کی سب چھوٹی چھوٹی
سکھی چمنی پہ چڑیوں کا وہ جوڑا
کرے اک دوسرے کی تکہ بوٹی
غزل
کھڑا جوڑا گندھی بالوں کی چوٹی
ناصر شہزاد