EN हिंदी
خبر کچھ ایسی اڑائی کسی نے گاؤں میں | شیح شیری
KHabar kuchh aisi uDai kisi ne ganw mein

غزل

خبر کچھ ایسی اڑائی کسی نے گاؤں میں

باقی صدیقی

;

خبر کچھ ایسی اڑائی کسی نے گاؤں میں
اداس پھرتے ہیں ہم بیریوں کی چھاؤں میں

نظر نظر سے نکلتی ہے درد کی ٹیسیں
قدم قدم پہ وہ کانٹے چبھے ہیں پاؤں میں

ہر ایک سمت سے اڑ اڑ کے ریت آتی ہے
ابھی ہے زور وہی دشت کی ہواؤں میں

غموں کی بھیڑ میں امید کا وہ عالم ہے
کہ جیسے ایک سخی ہو کئی گداؤں میں

ابھی ہے گوش بر آواز گھر کا سناٹا
ابھی کوشش ہے بڑی دور کی صداؤں میں

چلے تو ہیں کسی آہٹ کا آسرا لے کر
بھٹک نہ جائیں کہیں اجنبی فضاؤں میں

دھواں دھواں سی ہے کھیتوں کی چاندنی باقیؔ
کہ آگ شہر کی اب آ گئی ہے گاؤں میں