EN हिंदी
خبر ہے کہ آیا گلابوں کا موسم | شیح شیری
KHabar hai ki aaya gulabon ka mausam

غزل

خبر ہے کہ آیا گلابوں کا موسم

بانو بی

;

خبر ہے کہ آیا گلابوں کا موسم
گلوں کے بدن پر ہے کانٹوں کا موسم

خدا جانے اس رت میں کیا گل کھلائے
گلستاں کا جوبن یہ کلیوں کا موسم

لبوں کی شرارت نظر سے اشارت
دم وصل کیسا حیاؤں کا موسم

یہ دور محبت بھی کیسا عجب ہے
ہوں آنکھوں میں باتیں اشاروں کا موسم

ہوائے جدائی یہ کیسی چلی پھر
غموں کی فضا میں عذابوں کا موسم

جو پیاسے ہیں بانوؔ تم ان کو صدا دو
کہ صحرا میں اترا ہے چشموں کا موسم