خبر بھی ہے یہ خرد آگ کے پتلے جنوں کے زیر اثر رہے ہیں
سروں پہ سورج اٹھانے والے خود اپنے سائے سے ڈر رہے ہیں
سکوں سے مرتے ہیں مرنے والے جنہیں اجالوں کی ہے تمنا
یہی بہت ہے کہ سوئے مقتل چراغ شام و سحر رہے ہیں
انہیں بھروسہ دو زندگی کا جنہیں محبت ہے زندگی سے
اجل کے ہم نقش پا پہ چل کر فنا کی حد سے گزر رہے ہیں
رہ وفا میں جو بڑھ چکے ہیں وہ پاؤں پیچھے نہ ہٹ سکیں گے
تم اپنے حد ستم سے گزرو ہمیں جو کرنا ہے کر رہے ہیں
بجائے زہراب کس نے ساقی بھرے ہیں امرت سے جام و ساغر
کہ لوگ آب حیات پی کر قضا سے پہلے ہی مر رہے ہیں
غزل
خبر بھی ہے یہ خرد آگ کے پتلے جنوں کے زیر اثر رہے ہیں
عبدالحمید ساقی