EN हिंदी
خبر بھی ہے یہ خرد آگ کے پتلے جنوں کے زیر اثر رہے ہیں | شیح شیری
KHabar bhi hai ye KHirad aag ke putle junun ke zer-e-asar rahe hain

غزل

خبر بھی ہے یہ خرد آگ کے پتلے جنوں کے زیر اثر رہے ہیں

عبدالحمید ساقی

;

خبر بھی ہے یہ خرد آگ کے پتلے جنوں کے زیر اثر رہے ہیں
سروں پہ سورج اٹھانے والے خود اپنے سائے سے ڈر رہے ہیں

سکوں سے مرتے ہیں مرنے والے جنہیں اجالوں کی ہے تمنا
یہی بہت ہے کہ سوئے مقتل چراغ شام و سحر رہے ہیں

انہیں بھروسہ دو زندگی کا جنہیں محبت ہے زندگی سے
اجل کے ہم نقش پا پہ چل کر فنا کی حد سے گزر رہے ہیں

رہ وفا میں جو بڑھ چکے ہیں وہ پاؤں پیچھے نہ ہٹ سکیں گے
تم اپنے حد ستم سے گزرو ہمیں جو کرنا ہے کر رہے ہیں

بجائے زہراب کس نے ساقی بھرے ہیں امرت سے جام و ساغر
کہ لوگ آب حیات پی کر قضا سے پہلے ہی مر رہے ہیں