خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے
میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے
چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم
خیر بجھنے دو ان کو ہوا تو چلے
حاکم شہر یہ بھی کوئی شہر ہے
مسجدیں بند ہیں مے کدہ تو چلے
اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو
خودکشی کا ہنر تم سکھا تو چلے
اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پاؤں گا
آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے
بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے
غزل
خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے
کیفی اعظمی