خانقاہ میں صوفی منہ چھپائے بیٹھا ہے
غالباً زمانے سے مات کھائے بیٹھا ہے
قتل تو نہیں بدلا قتل کی ادا بدلی
تیر کی جگہ قاتل ساز اٹھائے بیٹھا ہے
ان کے چاہنے والے دھوپ دھوپ پھرتے ہیں
غیر ان کے کوچے میں سائے سائے بیٹھا ہے
وائے عاشق ناداں کائنات یہ تیری
اک شکستہ شیشے کو دل بنائے بیٹھا ہے
دور بارش اے گلچیں وا ہے دیدۂ نرگس
آج ہر گل نرگس خار کھائے بیٹھا ہے
غزل
خانقاہ میں صوفی منہ چھپائے بیٹھا ہے
کیف بھوپالی