EN हिंदी
خاندانی قول کا تو پاس رکھ | شیح شیری
KHandani qaul ka to pas rakh

غزل

خاندانی قول کا تو پاس رکھ

جگدیش راج فگار

;

خاندانی قول کا تو پاس رکھ
رام ہے تو سامنے بن باس رکھ

آس کے گوہر بھی کچھ مل جائیں گے
یاس کے کچھ پتھروں کو پاس رکھ

تو امارت کے محل کا خواب چھوڑ
خواب میں بس جھونپڑی کا باس رکھ

محض تیری ذات تک محدود کیوں
موسموں کے کیف کا بھی پاس رکھ

دہر میں ماضی بھی تھا تیرا نہ بھول
آنے والے کل میں بھی وشواس رکھ

تجھ کو اپنے غم کا تو احساس ہو
اپنے پہلو میں دل حساس رکھ

دولت افلاس تجھ کو مل گئی
دولت کونین کی اب آس رکھ

مبتدی کو لوح سے ہے واسطہ
تو تو ہے اہل قلم قرطاس رکھ

بوستاں سب کو لگے تیرا وجود
اپنے تن میں اس لئے بو باس رکھ

یہ زماں ہے تیز رو گھوڑا نہیں
ہاتھ میں اپنے نہ اس کی راس رکھ

صاحب مقدور ہے مانا فگارؔ
یہ تجھے کس نے کہا تھا داس رکھ