خانہ ساز اجالا مار
چاند پہ اپنا بھالا مار
نور کا دریا پھوٹ پڑے
ہجر کا ایسا نالہ مار
راستہ پانی مانگتا ہے
اپنے پاؤں کا چھالا مار
خاص کو رنگ عام دکھا
ادنائی سے آلا مار
چھوڑ یہ ذلت دشت کو چل
شہر کے گھر کو تالا مار
روح بھی سر ہو جائے گی
پہلے بدن کا پالا مار
دیر نہ کر فرحتؔ احساس
مار سفید پہ کالا مار
غزل
خانہ ساز اجالا مار
فرحت احساس