EN हिंदी
خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا | شیح شیری
KHana-e-zanjir ka paband rahta hun sada

غزل

خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا

امانت لکھنوی

;

خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا
گھر عبث ہو پوچھتے مجھ خانماں برباد کا

عشق قد یار میں کیا ناتوانی کا ہے زور
غش مجھے آیا جو سایہ پڑ گیا شمشاد کا

خود فراموشی تمہاری غیر کے کام آ گئی
یاد رکھیے گا ذرا بھولے سے کہنا یاد کا

خط لکھا کرتے ہیں اب وہ یک قلم مجھ کو شکست
پیچ سے دل توڑتے ہیں عاشق ناشاد کا

عشق پیچاں کا چمن میں جال پھیلا دیکھ کر
بلبلوں کو سرو پر دھوکا ہوا صیاد کا

قامت جاناں سے کرتا ہے اکڑ کر ہم سری
حوصلہ دیکھے تو کوئی سرو بے بنیاد کا

بے زبانی میں امانتؔ کی وہ ہیں گل ریزیاں
ناطقہ ہو بند اے دل بلبل ناشاد کا