خاموشی خود اپنی صدا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
سناٹا ہی گونج رہا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
میرا ماضی مجھ سے بچھڑ کر کیا جانے کس حال میں ہے
میری طرح وہ بھی تنہا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
صحرا صحرا کب تک میں ڈھونڈوں الفت کا اک عالم
عالم عالم اک صحرا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
اہل طوفاں سوچ رہے ہیں ساحل ڈوبا جاتا ہے
خود ان کا دل ڈوب رہا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
ان مدھ ماتی آنکھوں پر یہ جھوم کے آنا زلفوں کا
بادہ کشوں کو عام صلا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
یارو میرا کیا ہے کف قاتل کی رعنائی دیکھو
خون ہی کیوں ہو رنگ حنا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
ساری محفل میں اک تم سے اس کو تغافل کیوں ہے ذکاؔ
کوئی خاص انداز وفا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
غزل
خاموشی خود اپنی صدا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے
ذکا صدیقی