EN हिंदी
خاموشی کلام ہو گئی ہے | شیح شیری
KHamoshi kalam ho gai hai

غزل

خاموشی کلام ہو گئی ہے

صوفی تبسم

;

خاموشی کلام ہو گئی ہے
کیا حسن پیام ہو گئی ہے

اب چھوڑ دو تذکرہ وفا کا
یہ بات بھی عام ہو گئی ہے

یاد آئی سحر کو رات کی بات
اک آن میں شام ہو گئی ہے

اب پوچھ نہ چشم شوق کا حال
ٹوٹا ہوا جام ہو گئی ہے

جس شے پہ پڑی ہیں تیری نظریں
کیا عالی مقام ہو گئی ہے

لائی ہے نسیم کس کا پیغام
کیوں تیز خرام ہو گئی ہے