خاموش اس طرح سے نہ جل کر دھواں اٹھا
اے شمع کچھ تو بول کبھی تو زباں اٹھا
بت بن کے چپکے فتنے نہ یوں میری جاں اٹھا
منہ میں اگر زباں ہے تو لطف زباں اٹھا
ہے کوسوں دور منزل انجام گفتگو
تیزی کے ساتھ اپنے قدم اے زباں اٹھا
ڈر ہے یہی کہ کشتی مضموں نہ ڈوب جائے
رہ رہ کے اتنی موجیں نہ بحر زباں اٹھا
اب دور میں ہے رندوں کے پیمانۂ کلام
پھر آ گئی بہار پھر ابر زباں اٹھا
کر اس قدر نہ ذوق تکلم کو شرمسار
اپنا سر نیاز کبھی تو زباں اٹھا
کہتا ہے قدرؔ دیکھ کے تیرے سکوت کو
کچھ فائدہ کلام سے بھی اے زباں اٹھا
غزل
خاموش اس طرح سے نہ جل کر دھواں اٹھا
ابوزاہد سید یحییٰ حسینی قدر