خالی دنیا میں گزر کیا کرتے
بن ترے عمر بسر کیا کرتے
تو نے منزل ہی بدل دی اپنی
ہم تیرے ساتھ سفر کیا کرتے
ایک ہی خواب جنوں کافی تھا
دیکھ کر بار دگر کیا کرتے
اپنی ہی الجھنوں میں الجھے تھے
ہم تری زلف کو سر کیا کرتے
ہم جو دیوانگی میں کر گزرے
عقل والے وہ ہنر کیا کرتے
جو کیا تو نے خدا جانتا ہے
ہم ترے ساتھ مگر کیا کرتے
جبکہ رستے میں بکھرنا ہی تھا
باندھ کر رخت سفر کیا کرتے
جسم کا بوجھ لیے لوٹے تھے
شہر والوں کو خبر کیا کرتے
جو کیا تو نے خدا جانتا ہے
ہم ترے ساتھ مگر کیا کرتے
خود زمیں اوڑھ لی کہ ہم آگے
اور بے سمت سفر کیا کرتے
غزل
خالی دنیا میں گزر کیا کرتے
عدیل زیدی