خاکساری سے جو غافل دل غماز ہوا
خاک کے پردے میں پوشیدہ مرا راز ہوا
لے گیا خط جو کبوتر کی طرح طائر دل
زلف کے جال میں پھنستے ہی گرہ باز ہوا
ساز کے پردے میں کی تو نے حکومت سب پر
نئے قانون سے تیار ترا ساز ہوا
حیرتی فصل چمن میں ہوئی سرسبز ایسی
سبزہ رخسارۂ تصویر سے آغاز ہوا
رات شرما کے ترے بالوں سے روپوش ہوئی
زاغ شب کے لئے گیسو پر پرواز ہوا
کوٹھے پر چہرۂ پر نور دکھایا سر شام
یار سے رجعت خورشید کا اعجاز ہوا
چمن دہر میں تھے دیدۂ عنقا نرگس
جب سے میں شیفتۂ چشم فسوں ساز ہوا
صفت آبلہ مینائے فلک ٹوٹ گیا
کیا قیامت تری رفتار کا انداز ہوا
جب ہوا محو ادا باغ میں وہ خسرو حسن
پھولوں کے عکس سے گلگوں فرس ناز ہوا
آپ منہ دیکھنے کو آئینۂ دل مانگا
تصفیہ اس بت کافر سے خدا ساز ہوا
عرصۂ دہر میں باندھا جو طلسم الفت
دشمن جاں فلک شعبدہ پرداز ہوا
جان لیتا ہے تری تیر نگہ سے سب کی
اے پری پیک قضا بھی قدر انداز ہوا
سنبل آہ ہوا طرۂ شمشاد بہشت
ہم بغل مجھ سے جو وہ سرو سرافراز ہوا
اس سے کچھ کہہ کے مجھے ذبح کیا باتوں میں
تیز تر تیغ اجل سے لب غماز ہوا
لوگ کرتے ہیں کمال رخ زیبا کا وصف
خلق کو یاد ترا مصحف اعجاز ہوا
اے مغنی دل ناداں نکل آیا باہر
آج بے پردہ زمانہ میں ترا ساز ہوا
روز فرقت نے کیا طائر دل کو ہیجان
گل خورشید مجھے جنگل شہباز ہوا
بوسہ مانگا نہ گیا ہونٹوں کا اے رشک پری
رنگ مسی کا مجھے سرمۂ آواز ہوا
نشۂ غمزہ و انداز سے سرشار ہوں میں
کاسۂ عمر رواں جام مے ناز ہوا
تر دماغی جو بڑھے نشۂ معنی کی منیرؔ
کاسۂ سر مجھے جام مے شیراز ہوا
غزل
خاکساری سے جو غافل دل غماز ہوا
منیرؔ شکوہ آبادی