خاکساری کیجئے یا شہریاری کیجیے
ہم غریبوں میں کچھ اپنا فیض جاری کیجیے
جن سے کچھ حاصل نہیں تعبیر خواہی کے سوا
ایسے خوابوں میں بسر کیوں رات ساری کیجیے
جو ہمارا حال ہے اس سے الگ ان کا نہیں
ساکنان شہر سے کیا پردہ داری کیجیے
آپ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں معلوم ہے
پیار کر سکتے نہیں باتیں تو پیاری کیجیے
آئیں بھی تشریف لے آئیں یہی دستور ہے
بیٹھ کر میرے سرہانے غم گساری کیجیے
چوم کر ہم چھوڑ دیں گے یہ گماں سچا نہیں
آپ اپنی چاہ کا پتھر نہ بھاری کیجیے
ہم یوں ہی مر جائیں گے کافی ہے اشارہ آپ کا
آنکھ کو خنجر نہ ابرو کو کٹاری کیجیے
کشتگان خنجر تسلیم کہلاتے ہیں کیوں
کچھ تڑپ دکھلائیے کچھ بے قراری کیجیے
ہم برے ہیں یا بھلے محسوس خود کو بھی نہ ہو
تھوڑی اپنے آپ سے بھی ہوشیاری کیجیے
سرکشان عشق پھر آمادۂ فریاد ہیں
پھر کوئی فرمان قتل عام جاری کیجیے
غزل
خاکساری کیجئے یا شہریاری کیجیے
مدحت الاختر