خاک زادے خاک میں یا خاک پر ہیں آج بھی
سامنے اک کوزہ گر کے چاک پر ہیں آج بھی
یہ نہ جانا کس طرف سے آئی چنگاری مگر
تہمتیں ساری خس و خاشاک پر ہیں آج بھی
جس تکبر کی بدولت چھن گئے ان کے حقوق
اس کے اثرات رعونت ناک پر ہیں آج بھی
میں نے رتی بھر نظام فکر کو بدلا نہیں
منحصر افکار سب ادراک پر ہیں آج بھی
جو ازل سے ہیں سفیر عریانیت کے ان کے بھی
زاویے سب سوچ کے پوشاک پر ہیں آج بھی
میرا چہرہ جیسا تھا ویسا دکھایا اے ضمیرؔ
سب یقین آئینۂ بے باک پر ہیں آج بھی
غزل
خاک زادے خاک میں یا خاک پر ہیں آج بھی
ضمیر اترولوی