EN हिंदी
خاک زادے خاک میں یا خاک پر ہیں آج بھی | شیح شیری
KHak-zade KHak mein ya KHak par hain aaj bhi

غزل

خاک زادے خاک میں یا خاک پر ہیں آج بھی

ضمیر اترولوی

;

خاک زادے خاک میں یا خاک پر ہیں آج بھی
سامنے اک کوزہ گر کے چاک پر ہیں آج بھی

یہ نہ جانا کس طرف سے آئی چنگاری مگر
تہمتیں ساری خس و خاشاک پر ہیں آج بھی

جس تکبر کی بدولت چھن گئے ان کے حقوق
اس کے اثرات رعونت ناک پر ہیں آج بھی

میں نے رتی بھر نظام فکر کو بدلا نہیں
منحصر افکار سب ادراک پر ہیں آج بھی

جو ازل سے ہیں سفیر عریانیت کے ان کے بھی
زاویے سب سوچ کے پوشاک پر ہیں آج بھی

میرا چہرہ جیسا تھا ویسا دکھایا اے ضمیرؔ
سب یقین آئینۂ بے باک پر ہیں آج بھی