خاک تو ہم بھی ہر اک دشت کی چھانے ہوئے ہیں
کچھ نیا کرنے کی کوشش میں پرانے ہوئے ہیں
سبز موسم کا پتہ جن سے ملا کرتا تھا
تیرہ بختوں کے وہی شہر ٹھکانے ہوئے ہیں
خانۂ دل میں ابھی تک ہیں وہی لوگ آباد
جن کو اوجھل ہوئے آنکھوں سے زمانے ہوئے ہیں
تیر شاخوں میں ہیں پیوست پرندوں میں نہیں
کس شکاری کے خطا اتنے نشانے ہوئے ہیں
آب و گل ہی کا کرشمہ لب و رخسار بھی ہیں
ایسی کیا بات ہے کیوں آپ دوانے ہوئے ہیں
روز مت مانگیے مٹی کی محبت کا ثبوت
ہم تو یہ جسم اسی خاک کا چھانے ہوئے ہیں
شعر بھی لکھتا ہوں اور گھر بھی چلاتا ہوں جناب
کب کسی بوجھ کے شاکی مرے شانے ہوئے ہیں
غزل
خاک تو ہم بھی ہر اک دشت کی چھانے ہوئے ہیں
اسعد بدایونی