خاک سے تھے خاک سے ہی ہو گئے
آسماں کو اوڑھ کر ہم سو گئے
زندگی لکھ دی خدا نے ریت پر
ہم سمندر بن کے اس کو دھو گئے
کس لئے اجداد کو الزام دیں
ان سے جو بھی بن پڑا وہ بو گئے
جستجو تھی آسمانوں کی جنہیں
وہ زمیں کی گود میں گم ہو گئے
کون پوچھے اک مسافر کو جہاں
کارواں کے کارواں ہی کھو گئے
غزل
خاک سے تھے خاک سے ہی ہو گئے
عازم کوہلی