خاک سے خواب تلک ایک سی ویرانی ہے
میرے اندر مرے باہر کی بیابانی ہے
کوئی منظر کہیں موجود ہے پس منظر میں
ورنہ کیا چیز ہے جو باعث حیرانی ہے
کہہ کے دیکھیں گے بہ ہر طور مگر پہلے بھی
دل خود سر نے کوئی بات کہاں مانی ہے
کسے معلوم ہے رکنا کہ گزر جانا ہے
شام ہے ٹھہری ہوئی بہتا ہوا پانی ہے
دیکھ یہ دل جو کبھی حد سے گزر جاتا تھا
دیکھ دریا میں کوئی شور نہ طغیانی ہے
غزل
خاک سے خواب تلک ایک سی ویرانی ہے
اکرم محمود