خاک پر پھینکا ہواؤں نے اٹھا لے مجھ کو
پھول ہوں کوٹ کے کالر پہ سجا لے مجھ کو
کب سے میں ریت کے مرقد میں پڑا ہوں زندہ
سطح پر موج کسی دن تو اچھالے مجھ کو
سرخیٔ خوں میں چمک ہے کہ مری آنکھوں میں
روز وہ رنگ دکھاتا ہے نرالے مجھ کو
ساتھ ہی مجھ کو گرا لے نہ لچکتا ہوا پیڑ
اڑتا بادل نہ کہیں ساتھ اڑا لے مجھ کو
کانپ اٹھی ہے کسی اور کے گھر کی بنیاد
اور کوئی چیختا ہے مجھ میں بچا لے مجھ کو
راکھ ہو جاؤں نہ خواہش کی جلن سے حامدؔ
کوئی اس جلتے جزیرے سے نکالے مجھ کو

غزل
خاک پر پھینکا ہواؤں نے اٹھا لے مجھ کو
حامد جیلانی