خاک پر خاک کی ڈھیریاں رہ گئیں
آدمی اٹھ گئے نیکیاں رہ گئیں
کس کی تعلیم کا آخری سال تھا
چوڑیاں بک گئیں بالیاں رہ گئیں
عشق اک روپ تھا حسن کی دھوپ کا
یاد کیوں دھوپ کی سختیاں رہ گئیں
خون میں گھل گئیں سانولی قربتیں
تن میں تپتی ہوئی ہڈیاں رہ گئیں
درد انگور کی بیل تھے پھل گئے
غم کشوں کے لیے تلخیاں رہ گئیں
عرصۂ فسق میں قسمت عشق میں
حکمت آمیز پسپائیاں رہ گئیں
قمقموں کی طرح قہقہے جل بجھے
میز پر چائے کی پیالیاں رہ گئیں
اس بلندی پہ ہم نے پڑاؤ کیا
جس کے آگے فقط پستیاں رہ گئیں
حسن کے ہاتھ سے آئینہ گر پڑا
فرش پندار پر کرچیاں رہ گئیں
ہم نے کاغذ کو بھی آئنہ کر دیا
لیکن اپنی سیہ بختیاں رہ گئیں

غزل
خاک پر خاک کی ڈھیریاں رہ گئیں
خالد احمد