EN हिंदी
خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے | شیح شیری
KHak nind aae agar dida-e-bedar mile

غزل

خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے

ساقی فاروقی

;

خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے
اس خرابے میں کہاں خواب کے آثار ملے

اس کے لہجے میں قیامت کی فسوں کاری تھی
لوگ آواز کی لذت میں گرفتار ملے

اس کی آنکھوں میں محبت کے دیے جلتے رہیں
اور پندار میں انکار کی دیوار ملے

میرے اندر اسے کھونے کی تمنا کیوں ہے
جس کے ملنے سے مری ذات کو اظہار ملے

روح میں رینگتی رہتی ہے گنہ کی خواہش
اس امربیل کو اک دن کوئی دیوار ملے