خاک میں ملنا تھا آخر بے نشاں ہونا ہی تھا
جلنے والے کے مقدر میں دھواں ہونا ہی تھا
ہم نہ کہتے تھے کہ دیدے پھوٹ جائیں گے ترے
رات دن رونے سے آنکھوں کا زیاں ہونا ہی تھا
حرف ساکت بن گیا تقطیع سے خارج ہوا
اس غزل کی بزم سے مجھ کو نہاں ہونا ہی تھا
کیا ہوا جو بھول بیٹھے ہیں سبھی قاری مجھے
اک نہ اک دن مجھ کو بھولی داستاں ہونا ہی تھا
دھار پر چلنا تھا مجھ کو کودنا تھا آگ میں
زندگی میں ایک دن یہ امتحاں ہونا ہی تھا
روئی بن کر اڑ گئے پربت زمیں ہے زیر آب
یہ کرشمہ بھی تو زیر آسماں ہونا ہی تھا
صبر کر حسرتؔ نہ رو اجڑے چمن کو دیکھ کر
دیدنی منظر کو آنکھوں سے نہاں ہونا ہی تھا
غزل
خاک میں ملنا تھا آخر بے نشاں ہونا ہی تھا
اجیت سنگھ حسرت