EN हिंदी
خاک ہو کر بھی کب مٹوں گا میں | شیح شیری
KHak ho kar bhi kab miTunga main

غزل

خاک ہو کر بھی کب مٹوں گا میں

آلوک مشرا

;

خاک ہو کر بھی کب مٹوں گا میں
پھول بن کر یہیں کھلوں گا میں

تجھ کو آواز بھی میں کیوں دوں گا
تیرا رستہ بھی کیوں تکوں گا میں

اک پرانے سے زخم پر اب کے
کوئی مرہم نیا رکھوں گا میں

گھیر لیں گی یہ تتلیاں مجھ کو
خوشبوئیں جیوں رہا کروں گا میں

خود سے باہر تو کم نکلتا ہوں
جی میں آیا تو پھر ملوں گا میں

ورنہ جینا محال کر دے گا
درد کو اب غزل کروں گا میں

دھکدھکی سی لگی ہے کیوں جی کو
اتنی جلدی کہاں مروں گا میں

سانسیں دیتی رہیں جو چنگاری
ایک جنگل سا جل اٹھوں گا میں

تھک گیا ہوں میں اس جزیرے پر
پھر سمندر کا رخ کروں گا میں

روح کا یہ لباس بدلوں گا
بھیس دوجا کوئی دھروں گا میں