EN हिंदी
خاک ہو جائیں گے کردار یہ جانے مانے | شیح شیری
KHak ho jaenge kirdar ye jaane mane

غزل

خاک ہو جائیں گے کردار یہ جانے مانے

ذیشان ساجد

;

خاک ہو جائیں گے کردار یہ جانے مانے
اور مٹی سے ملیں گے سبھی تانے بانے

زندگی کی تو کبھی بھر نہ سکی الماری
پر کئے میں نے تمناؤں کے سارے خانے

ہم یہ کن تند ہواؤں کی زدوں میں آئے
ہم پرندے تو فقط آئے تھے چگنے دانے

مجھ کو دریاؤں نے صحراؤں میں تھامے رکھا
میں نے دریاؤں میں ڈالے تھے کسی پل آنے

کینوس چاروں طرف پھیلا ہوا ہے ذیشانؔ
پر نہیں ذہن جو تصویر کو پورا جانے