خاک ہو جائیں گے کردار یہ جانے مانے
اور مٹی سے ملیں گے سبھی تانے بانے
زندگی کی تو کبھی بھر نہ سکی الماری
پر کئے میں نے تمناؤں کے سارے خانے
ہم یہ کن تند ہواؤں کی زدوں میں آئے
ہم پرندے تو فقط آئے تھے چگنے دانے
مجھ کو دریاؤں نے صحراؤں میں تھامے رکھا
میں نے دریاؤں میں ڈالے تھے کسی پل آنے
کینوس چاروں طرف پھیلا ہوا ہے ذیشانؔ
پر نہیں ذہن جو تصویر کو پورا جانے
غزل
خاک ہو جائیں گے کردار یہ جانے مانے
ذیشان ساجد