خاک ہم منہ پہ ملے آئے ہیں
چاند کو چھو کے چلے آئے ہیں
شعلہ شعلہ یہ چٹانوں کے بدن
آبشاروں میں ڈھلے آئے ہیں
کسی منظر پہ نہیں کھلتی آنکھ
کس کی پلکوں کے تلے آئے ہیں
چاندنی سے کہو بازو کھولے
اس کی خوشبو کے جلے آئے ہیں
شوخ کرنوں نے پکارا ہے ہمیں
دن ہمارے بھی بھلے آئے ہیں
وہی تعبیر وہی اک چہرہ
خواب کیا رات ڈھلے آئے ہیں
غزل
خاک ہم منہ پہ ملے آئے ہیں
ذکاء الدین شایاں